TOP

کہ اجنبی سا کوئی شخص اجنبی سے ملا



کوئی نہ سایہ شبِ وصل روشنی سے ملا

وہ ماہ رُخ کہ ہمیں اتنی بے رُخی سے ملا


ہم ایسے اِس کے اشاروں پہ ناچتے تھے کبھی

ابھی جو شخص ہمیں اتنی بے بسی سے ملا


کسی کرن نے مرا راستہ اُجال دیا

کوئی ستارہ مری شامِ سُرمئی سے ملا


وگرنہ ہم تو کبھی آپ سے نہ مل پاتے

ہمیں کہ اپنا پتہ اپنی بےخودی سے ملا


کبھی وہ مجھ سے ملے گا تو یوں لگے گا اُسے

کہ اجنبی سا کوئی شخص اجنبی سے ملا


کلام کرنے لگا پھر کوئی لبِ خاموش

کہا جو اُس نے مجھے اُس کی اَن کہی سے ملا


مجھے تو ایسا لگا تھا حیات ختم ہُوئی

یہ سلسلہ تو کسی اور زندگی سے ملا


میں اپنے کاندھے پہ بادل اُٹھا کے لایا تو

بلا کا دشت مجھے کتنی عاجزی سے ملا


پکارتا تھا جسے میں گلی گلی میں جمیلؔ

نواحِ جاں میں مجھے آ کے خامشی سے ملا




0 comments:

Post a Comment