TOP

وہ حرف راز کہ مجھ کو سکھا گیا ہے جنوں



وہ حرف راز کہ مجھ کو سکھا گیا ہے جنوں

خدا مجھے نفس جبرئیل دے تو کہوں


ستارہ کیا مری تقدیر کی خبر دے گا


وہ خود فراخی افلاک میں ہے خوار و زبوں

حیات کیا ہے ، خیال و نظر کی مجذوبی

خودی کی موت ہے اندیشہ ہائے گونا گوں

عجب مزا ہے ، مجھے لذت خودی دے کر

وہ چاہتے ہیں کہ میں اپنے آپ میں نہ رہوں

ضمیر پاک و نگاہ بلند و مستی شوق

نہ مال و دولت قاروں ، نہ فکر افلاطوں

سبق ملا ہے یہ معراج مصطفی سے مجھے

کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں

یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید

کہ آرہی ہے دما دم صدائے ‘کن فیکوں’

علاج آتش رومی کے سوز میں ہے ترا

تری خرد پہ ہے غالب فرنگیوں کا فسوں





0 comments:

Post a Comment