قربتوں میں بھی جدائی کے زمانے مانگے
دل وہ بے مہر کہ رونے کے بہانے مانگے
ہم نہ ہوتے تو کسی اور کے چرچے ہوتے
یہی دل تھا کہ ترستا تھا مراسم کے لیے
اب یہی ترک تعلق کے بہانے مانگے
اپنا یہ حال کہ جی ہار چکے لٹ بھی چکے
اور محبت وہی انداز پرانے مانگے
زندگی ہم تیرے داغوں سے رہے شرمندہ
اور تو وہ کہ صدا آئینے خانے مانگے
دل کسی حال پہ قانع ہی نہیں جانِ فراز
مل گئے تم بھی تو کیا اور نہ جانے مانگے
0 comments: