TOP

میں نے ایسے بھی خواب دیکھے ہیں


تُو میری جستجو کے جنگل میں
محوِ ترکیبِ آبلہ پائی
اوڑھ کر خال و خد پہ تنہائی
اپنی آنکھوں میں دوپہر کو گھولے
انگلیوں پر لپیٹ کر لمحے
ڈھلتی چھاؤں میں کاکلیں کھولے
سرخ آنچل میں باندھ کر خوشبو
گرم سانسوں میں ہانپتے گھنگرو
نرم ہونٹوں پہ رُت کی رعنائی
ہمراہِ موجِ شناسائی
گھر سے بےآسرا نکل آئی
تُو نے شاخوں سے چھین کر جگنو
پتے پتے پہ خواہشیں رکھیں
چھیل کر چھال سبز پیڑوں کی
اپنے اشکوں کی روشنائی سے
چوبِ شفاف پر بصدِ حسرت
مدتوں میرا نام لکھا ھے
ھجر کے بےکنار صحرا میں
تیرے ہونٹوں کی پیاس نے اکثر
میری خاطر سراب دیکھے ہیں
میں نے ایسے بھی خواب دیکھے ہیں
میں نے ایسے بھی خواب دیکھے ہیں


0 comments:

Post a Comment